سیر چمن کروں تو وہاں بھی نہ جی لگےِ
پھولوں کی دلکشی میں تمھاری کمی لگے
اچھایٔ کو برایٔ سمجھتے رہے ہو تم
میری ہر ایک بات نہ کیسے بری لگے
عکس تو لاکھوں آئے نظر سیماب صفت آیئنے میں
دیکھ نہ پائے اپنا چھرہ گہری جھیل کے سینے میں
کھیچ کے لنگر تہمت کیوں سیلاب کے سرتم دھرتے ہو
ربط کہاں رکھا ہے باقی ساحل اور سفینےمیں
بے حسی پر حسیت کی داستاں لکھ دیجئے
دھوپ سے اب برف پر آب رواں لکھ دیجئے
کاتب تقدیر ٹھہرے آپ کو روکے گا کون
جو بھی انکر سر اٹھائے رائیگاں لکھ دیجئے
جب زمانے میں کہیں ظلم و ستم جاگتا ہے
ڈھال بن کر مرے آقا کا کرم جاگتا ہے
فیض سے آپ کے اللہ کا اتنا ہے کرم
آج بھی آپ کی امّت کا بھرم جاگتا ہے
تازہ آزار کا ارمان کہاں جاتا ہے
پھر ستا لے ترے قربان کہاں جاتا ہے
کس پہ دل آیا کہاں آیا بتا اے ناصح
تو مری طرح پریشان کہاں جاتا ہے
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
فضا میں دائرے بکھرے ہوئے ہیں
ہم اپنی ذات میں الجھے ہوئے ہیں
ہزار خواہشوں کے بت ہیں دل میں
مگر بت بھی کبھی سچے ہوئے ہیں