ہر آدمی کو خواب دکھانا محال ہے
شعلوں میں جیسے پھول کھلانا محال ہے
اترے تو کئی بار صحیفے مرے گھر میں
ملتے ہیں مگر صرف جریدے مرے گھر میں
عکس تو لاکھوں آئے نظر سیماب صفت آیئنے میں
دیکھ نہ پائے اپنا چھرہ گہری جھیل کے سینے میں
کھیچ کے لنگر تہمت کیوں سیلاب کے سرتم دھرتے ہ
بے حسی پر حسیت کی داستاں لکھ دیجئے
دھوپ سے اب برف پر آب رواں لکھ دیجئے
جو میرے دل میں ہے ملنے کی آس رہنے دو
کسی کی دید کی آنکھوں میں پیاس رہنے دو
غم خوار مل گیا تو سنبھلنے لگی ہے شام
میری رفاقتوں میں بہلنے لگی ہے شام
لزّت عیش اگرچہ مجھے معلوم نہیں
لزّت درد جگر سے تو میں محروم نہیں
یاد کا نشتر جو تنہائی نکیلا کر گئی
وقت کے سوکھے ہوۓ زخموں کو گیلا کر گئی
سیر چمن کروں تو وہاں بھی نہ جی لگےِ
پھولوں کی دلکشی میں تمھاری کمی لگے