یاد کا نشتر جو تنہائی نکیلا کر گئی
وقت کے سوکھے ہوۓ زخموں کو گیلا کر گئی
سیر چمن کروں تو وہاں بھی نہ جی لگےِ
پھولوں کی دلکشی میں تمھاری کمی لگے
نفس کی زد پہ ہر اک شعلۂ تمنا ہے
ہوا کے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے
شب کے ہاتھوں گرا اور کہیں رہ گیا
چاند پھر بے فلک بے زمیں رہ گیا
بڑے جتن سے بڑے سوچ سے اتارا گیا
مرا ستارا سر خاک بھی سنوارا گیا
کہتے ہیں کہ دے میری بلا داد کسی کی
کانوں کو مزہ دیتی ہے فریاد کسی کی
ہر کسی خواب کے چہرے پہ لکھوں نام ترا
میں اسے اپنا ہنر سمجھوں کہ انعام ترا