شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زویا شیخ

  • غزل


مجھ کو بھی اس سے عشق تھا الفت غضب کی تھی


مجھ کو بھی اس سے عشق تھا الفت غضب کی تھی
اس کو بھی مجھ حقیر سے چاہت غضب کی تھی

وہ لڑکی جو نصیب پہ روتی تھی رات بھر
گلیوں میں اس کے حسن کی شہرت غضب کی تھی

ہنستے ہوئے لبوں کو وہ ہلکے سے کاٹنا
واللہ اس حسین کی عادت غضب کی تھی

جانے سے اس کے باغ میں عالم خزاں کا تھا
سوکھے گلوں میں قید وہ وحشت غضب کی تھی

خنجر رقیب کا تھا تو تدبیر دوست کی
مقتل میں زویاؔ یار کی شرکت غضب کی تھی


Leave a comment

+