شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زبیر شفائی

  • غزل


جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا


جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا
وہ آئینہ ہے تو اپنی صفائی کیوں نہیں دیتا

دکھائی دے رہے ہیں سامنے والوں کے ہلتے لب
مگر وہ کہہ رہے ہیں کیا سنائی کیوں نہیں دیتا

سمندر بھی تری آنکھوں میں صحرا کی طرح گم ہے
یہاں وہ تنگئ جا کی دہائی کیوں نہیں دیتا

جب اس نے توڑ دی زنجیر دیواریں گرا دی ہیں
اسیری کے تصور سے رہائی کیوں نہیں دیتا

وہ خود سے بخش دیتا ہے جہان آب و گل مجھ کو
طلب کے باوجود آخر گدائی کیوں نہیں دیتا

اب آنکھوں سے نہیں ہاتھوں سے چھونا چاہتا ہوں
مجھے وہ وصل آمیزہ جدائی کیوں نہیں دیتا

زبیرؔ اک بار انگلی بھی نہیں چھونے کو ملتی ہے
وہ اپنے ہشت پہلو میں رسائی کیوں نہیں دیتا


Leave a comment

+