شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ذیشان ساحل

  • غزل


یوں بولی تھی چڑیا خالی کمرے میں


یوں بولی تھی چڑیا خالی کمرے میں
جیسے کوئی نہیں تھا خالی کمرے میں

ہر پل میرا رستہ دیکھا کرتا ہے
جانے کس کا سایہ خالی کمرے میں

کھڑکی کے رستے سے لایا کرتا ہوں
میں باہر کی دنیا خالی کمرے میں

ہر موسم میں آتے جاتے رہتے ہیں
لوگ ہوا اور دریا خالی کمرے میں

چہروں کے جنگل سے لے کر آیا ہوں
سرخ گلاب کا پودا خالی کمرے میں

بستی میں ہر رات نکلنے والا چاند
عمر ہوئی نہ اترا خالی کمرے میں

تیز ہوا میں سارے کوزے ٹوٹ گئے
اور پھیلا اک صحرا خالی کمرے میں

ساحلؔ شہر سے دور اکیلا رہتا ہے
جیسے میں ہوں رہتا خالی کمرے میں


Leave a comment

+