شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ذوالفقار نقوی

  • غزل


مری خاک میں ولا کا نہ کوئی شرار ہوتا


مری خاک میں ولا کا نہ کوئی شرار ہوتا
نہ ہی دل سے آگ اٹھتی نہ یہ بے قرار ہوتا

مرے سر پہ ہاتھ رکھنا جو ترا شعار ہوتا
میں نہ در بدر بھٹکتا کہیں آر پار ہوتا

میں رہین قلب مضطر تو چراغ شادمانی
تری محفل طرب میں کہاں دل فگار ہوتا

تری بے خودی نے اے دل کسی کام کا نہ چھوڑا
تری بات ٹال دیتا تو نہ خود پہ بار ہوتا

ترے حسن کی کہانی مری چشم تر سے نکلی
میں نہ اشک بار ہوتا تو نہ آشکار ہوتا

اگر اس پہ بیٹھ جاتا کوئی مرغ نا امیدی
مرا نخل آرزو پھر کہاں سایہ دار ہوتا


Leave a comment

+