شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ذالفقار احمد تابش

  • غزل


بے ثبات صبح شام اور مرا وجود


بے ثبات صبح شام اور مرا وجود
یہی عذاب ہے مدام اور مرا وجود

کوئی چیز کم ہے مجھ میں بس یہی خیال
سارا جہان جیسے خام اور مرا وجود

اس کا حسن بے اماں اور مرا حضور
ایک تیغ بے نیام اور مرا وجود

گفتگو ہی گفتگو اور مرا سکوت
ایک حرف بے کلام اور مرا وجود

میری حیات آئینۂ ہجر مستقل
اک سفر ہے بے قیام اور مرا وجود

میں ابھی تلک وصال آب و گل کے بیچ
جیسے مرگ بے مقام اور مرا وجود

شعلۂ شوق نارسا اور یہ قید جسم
اک حصار صبح و شام اور مرا وجود


Leave a comment

+