شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یعقوب عامر

  • غزل


کیا ہوا ہم سے جو دنیا بد گماں ہونے لگی


کیا ہوا ہم سے جو دنیا بد گماں ہونے لگی
اپنی ہستی اور بھی نزدیک جاں ہونے لگی

دھیرے دھیرے سر میں آ کر بھر گیا برسوں کا شور
رفتہ رفتہ آرزوئے دل دھواں ہونے لگی

باغ سے آئے ہو میرا گھر بھی چل کر دیکھ لو
اب بہاروں کے دنوں میں بھی خزاں ہونے لگی

چند لوگوں کی فراغت شہر کا چہرہ نہیں
یہ حقیقت سب کے چہروں سے عیاں ہونے لگی

یاد ہے اب تک کسی کے ساتھ اک شام وصال
پھر وہ راتیں جب دم رخصت اذاں ہونے لگی

بعد نفرت پھر محبت کو زباں درکار ہے
پھر عزیز جاں وہی اردو زباں ہونے لگی

ذکر طوفان حوادث کا چھڑا جو ایک دن
ہوتے ہوتے داستاں میری بیاں ہونے لگی

سخت منزل کاٹ کر ہم جب ہوئے کچھ سست پا
تیز رو کچھ اور بھی عمر رواں ہونے لگی

چھو رہی ہے آسمانوں کی بلندی پھر نظر
پھر ہماری زندگی انجم نشاں ہونے لگی

لو یقیں آیا کہ دل کے درد کی تاثیر ہے
اب تو اک اک چیز ہم سے ہم زباں ہونے لگی

گھر کی محنت سے مری روشن ہوئے ایوان زر
روشنی ہونی کہاں تھی اور کہاں ہونے لگی

سچ کہوں عامرؔ کہ اب اس دور میں جیتے ہو تم
رسم الفت بھی جہاں سود و زیاں ہونے لگی


Leave a comment

+