شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یعقوب عارف

  • غزل


نہ چارہ گر نہ مسیحا نہ راہبر تھا میں


نہ چارہ گر نہ مسیحا نہ راہبر تھا میں
نظر میں پھر بھی زمانے کی معتبر تھا میں

انا پہ حرف نہ آ جائے حق پرستوں کی
اٹھائے اپنے ہی نیزے پہ اپنا سر تھا میں

سوال یہ نہیں کس نے کیا تھا قتل مجھے
سوال یہ ہے کہ کیوں خود سے بے خبر تھا میں

جو صبح نو کا اسیری میں دے رہا تھا پیام
وہ انقلاب زمانہ کا نامہ بر تھا میں

سکون دل بھی ملا آبلوں کی لذت بھی
تمہارے ساتھ سفر میں جو ہم سفر تھا میں

ہوئے تھے پست ہواؤں کے حوصلے عارفؔ
جب اپنے کھولے فضاؤں میں بال و پر تھا میں


Leave a comment

+