شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وفا نقوی

  • غزل


یہ ٹھیک ہے وہ ہم کو میسر نہیں ہوا


یہ ٹھیک ہے وہ ہم کو میسر نہیں ہوا
لیکن کہاں کہاں وہ منور نہیں ہوا

لوٹا جو شام کو تو کوئی منتظر نہ تھا
اس بار بے قرار مرا گھر نہیں ہوا

کیا جانے کب اترنے لگے وہ دماغ پر
کوئی جنوں کا وقت مقرر نہیں ہوا

سب جیتنے کی ضد پہ یہاں ہارنے لگے
صدیوں سے کوئی شخص سکندر نہیں ہوا

بازو تو کٹ کے جڑ گئے میری حیات سے
لیکن ابھی نصیب مجھے سر نہیں ہوا

پھل توڑ لیتا آج میں اپنی حیات کا
اچھا ہوا کہ ہاتھ میں پتھر نہیں ہوا

صحرا سے لاکھوں بار نچوڑی گئی ہے پیاس
پھر بھی سمندروں کا گلا تر نہیں ہوا


Leave a comment

+