شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وشال کھلر

  • غزل


وقت کی انگلی پکڑے رہنا اچھا لگتا ہے


وقت کی انگلی پکڑے رہنا اچھا لگتا ہے
ہم کو چلتے پھرتے رہنا اچھا لگتا ہے

ایک سمندر لاکھوں دریا دل میں اک طوفان
شام و سحر یوں ملتے رہنا اچھا لگتا ہے

کتنی راتیں سوتے سوتے گزریں خوابوں میں
لیکن اب تو جگتے رہنا اچھا لگتا ہے

سچ کے دروازے پر دستک دیتا رہتا ہوں
آگ کی لپٹیں اوڑھے رہنا اچھا لگتا ہے

پھولوں کے کھلنے کا موسم دور تلک لیکن
غنچہ غنچہ سمٹے رہنا اچھا لگتا ہے

لمحہ لمحہ پل پل میں نے تم سے باتیں کیں
پاس تمہارے بیٹھے رہنا اچھا لگتا ہے

سورج اوڑھا تارے اوڑھے اوڑھے دن اور رات
ہم کو جلتے بجھتے رہنا اچھا لگتا ہے

تنہائی میں بیٹھ کے پہروں تم سے باتیں کیں
ہم کو غزلیں پڑھتے رہنا اچھا لگتا ہے

کتنے سارے چہرے بدلے لیکن اب کھلرؔ
ایک سلیقہ اوڑھے رہنا اچھا لگتا ہے


Leave a comment

+