شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وسیم خیر آبادی

  • غزل


جائے عاشق کی بلا حشر میں کیا رکھا ہے


جائے عاشق کی بلا حشر میں کیا رکھا ہے
ایک فتنہ تری ٹھوکر کا اٹھا رکھا ہے

لطف کونین ہے اس میں مری بوتل کی پیو
زاہدو چشمۂ تسنیم میں کیا رکھا ہے

مل ہی جاتا ہے کوئی چھیڑنے والا مجھ کو
تم الگ ہو تو مجھے دل نے ستا رکھا ہے

کل وہ فتنہ بھی قیامت میں قیامت ہوگا
جس کو آج آپ نے قدموں سے لگا رکھا ہے

آئے میت پہ کس انداز سے فرماتے ہیں
دم مرے چھیڑنے کو اس نے چرا رکھا ہے

دل اڑے جاتے ہیں ہر فتنۂ آواز کے ساتھ
بیٹھ کر پردوں میں اک حشر اٹھا رکھا ہے

خوش رہو گے جو پیو بادہ فقیری میں وسیمؔ
مجھ کو اک مست نے یہ بھید بتا رکھا ہے


Leave a comment

+