شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ورن آنند

  • غزل


کہیں نہ ایسا ہو اپنا وقار کھا جائے


کہیں نہ ایسا ہو اپنا وقار کھا جائے
خزاں سے پھول بچائیں بہار کھا جائے

ہمارے جیسا کہاں دل کسی کا ہوگا بھلا
جو درد پالے رکھے اور قرار کھا جائے

پلٹ کے سنگ تری اور پھینک سکتا ہوں
کہ میں وہ قیس نہیں ہاں جو مار کھا جائے

اسی کا داخلہ اس دشت میں کرو اب سے
جو صبر پی سکے اپنا غبار کھا جائے

بہت قرار ہے تھوڑی سی بے قراری دے
کہیں نہ ایسا ہو مجھ کو قرار کھا جائے

عجب سفینہ ہے یہ وقت کا سفینہ بھی
جو اپنی گود میں بیٹھا سوار کھا جائے


Leave a comment

+