شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وجد چغتائی

  • غزل


سائے نے سائے کو صدا دی


سائے نے سائے کو صدا دی
ریت کی ہر دیوار گرا دی

اس گھر میں رکھا ہی کیا تھا
میں نے گھر میں آگ لگا دی

نیند تمہیں آتی ہی کب تھی
یاد نے کس کی نیند اڑا دی

گزرے تھے خاموش گلی سے
وہ جانے اب جس نے صدا دی

ایک ذرا سی بات تھی جس کی
دل نے ساری عمر سزا دی

میں اپنے غم میں ڈوبا تھا
تم نے کیوں آواز سنا دی

اک سائے کی یاد میں پیارے
ناحق ساری عمر گنوا دی

ہو کے عالم میں بولے ہو
ساری فضا اک گونج بنا دی

جب ساگر اپنے پر آیا
ساحل کی ہر چیز بہا دی

عشق عجب ضدی بچہ ہے
سر پھوڑا اور خاک اڑا دی

عشق ہماری مٹی میں تھا
صورت کیوں پتھر کی بنا دی


Leave a comment

+