کسے بتاؤں کہ غم کیا ہے سر خوشی کیا ہے
ابھی زمانے کا معیار آگہی کیا ہے
قدم قدم پہ میں سنبھلا ہوں ٹھوکریں کھا کر
یہ ٹھوکروں نے بتایا غلط روی کیا ہے
زمیں پہ لالہ و گل آسماں پہ ماہ و نجوم
نگاہ حسن طلب کے لیے کمی کیا ہے
کمند ڈال رہا ہے جو چاند تاروں پر
خدا ہی جانے کہ تقدیر آدمی کیا ہے
نفس کی آمد و شد پر بھی اختیار نہیں
یہ زندگی ہے تو مقصود زندگی کیا ہے
وفا پرستوں سے کیوں ضد ہے اس پہ سب چپ ہیں
سوال یہ ہے کہ اس کا جواب ہی کیا ہے
عروجؔ تیرگیٔ شب کا احترام کرو
اسی سے تم نے یہ جانا کہ تیرگی کیا ہے
Leave a comment