شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

عروج زیدی بدایونی

  • غزل


پائے طلب کی منزل اب تک وہی گلی ہے


پائے طلب کی منزل اب تک وہی گلی ہے
آغاز بھی یہی تھا انجام بھی یہی ہے

جس داستان غم کا عنوان روشنی ہے
ہر لفظ کی سیاہی خود منہ سے بولتی ہے

طرز تپاک قائم لطف نظر وہی ہے
لیکن یہ واقعہ ہے پھر بھی کوئی کمی ہے

ان کی نظر سے دل کی یہ بحث ہو رہی ہے
کیا چیز زندگی میں مقصود زندگی ہے

ہر لغزش بشر پر تنقید کرنے والو
تم یہ بھلا چکے ہو انسان آدمی ہے

یہ سازش تغیر ہے کتنی جان لیوا
مجھ کو جگا کے میری تقدیر سو گئی ہے

ہاں میرے واسطے ہے تخصیص کا یہ پہلو
دنیا سمجھ رہی ہے انداز بے رخی ہے

ممکن نہیں کہ دامن بے داغ ہو کسی کا
سچ پوچھئے تو دنیا کاجل کی کوٹھری ہے

تابندہ ہر نفس ہے امید کی بدولت
محراب زندگی میں اک شمع جل رہی ہے

دیکھے تو کوئی شان سحر نگاہ ساقی
ساغر میں کھنچ کے روح مے خانہ آ گئی ہے

وابستۂ‌ نفس ہے نظم و نظام ہستی
یعنی ہوا پہ قائم بنیاد زندگی ہے

کب تک یہ خواب غفلت جاگو عروجؔ جاگو
اب دھوپ بڑھتے بڑھتے سر پر ہی آ گئی ہے


Leave a comment

+