شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

امید فاضلی

  • غزل


ہم ترا عہد محبت ٹھہرے


ہم ترا عہد محبت ٹھہرے
لوح نسیاں کی جسارت ٹھہرے

دل لہو کر کے یہ قسمت ٹھہرے
سنگ فن کار کی اجرت ٹھہرے

مقتل جاں کی ضرورت ٹھہرے
ہم کہ شایان محبت ٹھہرے

کیا قیامت ہے وہ قاتل مجھ میں
میرے احساس کی صورت ٹھہرے

وقت کے دجلۂ طوفانی میں
آپ ہم موجۂ عجلت ٹھہرے

دوستی یہ ہے کہ خوشبو کے لیے
رنگ زندانیٔ صورت ٹھہرے

تو ہے خورشید نہ میں ہوں شبنم
کیا ملاقات کی صورت ٹھہرے

اف یہ گزرے ہوئے لمحوں کا ہجوم
در و دیوار قیامت ٹھہرے

کوچہ گردان جنوں مثل صبا
زلف آوارہ کی قسمت ٹھہرے

عشق میں منزل آرام بھی تھی
ہم سر کوچۂ وحشت ٹھہرے

جب سے امیدؔ گیا ہے کوئی!!
لمحے صدیوں کی علامت ٹھہرے


Leave a comment

+