شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

تسنیم فاروقی

  • غزل


صدیوں لہو سے دل کی حکایت لکھی گئی


صدیوں لہو سے دل کی حکایت لکھی گئی
میری وفا گئی نہ تری بے رخی گئی

دل دے کے اس کو چھوٹ گئے اپنے آپ سے
اس سے چھٹے تو ہاتھ سے دنیا چلی گئی

یاد آئی اپنی خانہ خرابی بہت مجھے
دیوار جب بھی شہر میں کوئی چنی گئی

اس کو بھی چھیڑ چھاڑ کا انداز آ گیا
دیکھا مجھے تو جان کے انگڑائی لی گئی

ناخن کے چاند زلف کے بادل لبوں کے پھول
کس اہتمام سے تجھے تشکیل دی گئی

لمحے کو زندگی کے لیے کم نہ جانیے
لمحہ گزر گیا تو سمجھیے صدی گئی

تم کیا پیو گے چوم کے رکھ دو لبوں سے جام
تسنیمؔ یہ شراب ہے کتنوں کو پی گئی


Leave a comment

+