شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ساحل احمد

  • غزل


اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت


اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت
کیوں ستاتی ہے یہ تنہائی بہت

ہجر کی سوغات کیا لائی بہت
بے تحاشہ یاد بھی آئی بہت

پیچ و خم زلفوں کا سارا کھل گیا
رات بھر آنکھوں میں لہرائی بہت

کیوں چمک اٹھتی ہے بجلی بار بار
اے ستم گر لے نہ انگڑائی بہت

گھر سے ساحلؔ آ کے لوٹی دھوپ کیا
ہو گئی میری تو رسوائی بہت


Leave a comment

+