شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ سید

  • غزل


اک عہد کی صورت ہے کہ پیمان کی صورت


اک عہد کی صورت ہے کہ پیمان کی صورت
تو دل میں بسا رہتا ہے ایمان کی صورت

لکھتی ہوں ہر اک بات گزرتی ہے جو دل پہ
بن جائے گی اک روز یہ دیوان کی صورت

ٹوٹا ہے ابھی تک نہ ہی ٹوٹے گا کبھی بھی
رکھتی ہوں تجھے ساتھ میں اک مان کی صورت

اب بن کے یقیں دل میں سمٹ آیا ہے میرے
آغاز میں لگتا تھا جو امکان کی صورت

آؤ تو ذرا باغ میں مل کر انہیں دیکھیں
آئے ہیں پرندے یہاں مہمان کی صورت

اے چارہ گرو آؤ میرے سامنے آؤ
دیکھو تو ذرا بے سر و سامان کی صورت


Leave a comment

+