شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ راجہ

  • غزل


شجر عشق ہمیں دار کے مانند بھی ہے


شجر عشق ہمیں دار کے مانند بھی ہے
دل کسی شاخ طرب ناک سے پیوند بھی ہے

دل ناداں سے نہیں اہل جہاں سے پوچھو
کوئی میثاق محبت پہ رضامند بھی ہے

درگزر بام وفا سے کہ جنوں خیز ہوا
یہ چراغ ایک شب وعدہ کا پابند بھی ہے

رات تنہائی تعاقب میں مسلسل کوئی چاپ
اور جب علم ہو آگے یہ گلی بند بھی ہے

چھوڑ بھی آئے وہ گھر بھول بھی آئے ہیں وہ یاد
دل میں کچھ ٹوٹے ہوئے تیر کے مانند بھی ہے

دستک ہجر سے ٹوٹی تھی مری نیند سو اب
رات بھی باقی ہے اور خواب کا در بند بھی ہے


Leave a comment

+