شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمیر کبیر

  • غزل


کوئی صورت کتاب سے نکلے


کوئی صورت کتاب سے نکلے
یاد سوکھے گلاب سے نکلے

میری آنکھیں ہے منتظر اب بھی
کب وہ چہرہ نقاب سے نکلے

کتنے موتی ہیں اس کے آنچل میں
کتنی کرنیں حجاب سے نکلے

اے شب ماہ ٹوٹتا ہے بدن
درد شاید شراب سے نکلے

چاند اترا تھا شب کو آنگن میں
نیند ٹوٹے تو خواب سے نکلے

وہ مری پیاس کو بجھا دے گا
ایک قطرہ جو آب سے نکلے


Leave a comment

+