شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثاقب لکھنوی

  • غزل


مرا دل داد خواہ ظلم اصلاً ہو نہیں سکتا


مرا دل داد خواہ ظلم اصلاً ہو نہیں سکتا
مروت منہ کو سی دیتی ہے شکوا ہو نہیں سکتا

چھپاؤ آپ کو جس رنگ یا جس بھیس میں چاہو
مگر چشم حقیقت بیں سے پردا ہو نہیں سکتا

تماشا گاہ حیرت ہے دیار دل کی ویرانی
یہ سناٹا میان دشت و صحرا ہو نہیں سکتا

بڑھا ایک اور غم افشائے راز عشق سے ورنہ
نہ میں کھلتا نہ وہ کہتے کہ ایسا ہو نہیں سکتا

مرے ظلمت کدہ میں روز روشن کا گزر کیسا
سلامت ہے شب غم تو اجالا ہو نہیں سکتا

دم عہد و وفا ٹھہرا نہ ان کے سامنے کوئی
سوا میرے تو میں کس دل سے کہتا ہو نہیں سکتا

کبھی کج‌ طبع کو دیکھا نہ سیدھی راہ پر آتے
جو ہے دراصل بد باطن وہ اچھا ہو نہیں سکتا

نہ ہوں سنگ در مے خانہ اہل زہد اے ثاقبؔ
کہ میں پابند رسم و راہ تقویٰ ہو نہیں سکتا


Leave a comment

+