بلا کا ذکر کیا یہ موج بھی غنیمت ہے
تماشا دیکھ رہے ہیں یہی غنیمت ہے
کسی کے مال سے کوئی غرض نہیں ہم کو
ہماری جیب میں جو ہے وہی غنیمت ہے
کھلی ہوئی ہیں جو راہیں تو یہ سمجھ لو تم
کہ اپنے شہر کا موسم ابھی غنیمت ہے
ہمیں ہے فخر کہ نسبت کے پاسدار ہیں ہم
ہمارے واسطے ہر شے بڑی غنیمت ہے
خود اپنے آپ کو پتھر بتا رہے ہیں سب
نزاکتوں سے ہیں واقف سبھی غنیمت ہے
مصالحت کی تمنا ہوئی ہے تو راحتؔ
ہر ایک شرط ہی اب لگ رہی غنیمت ہے
Leave a comment