شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رئیس انصاری

  • غزل


وہ رنجشیں وہ مراسم کا سلسلہ ہی نہیں


وہ رنجشیں وہ مراسم کا سلسلہ ہی نہیں
یہاں کسی میں وہ پہلا سا رابطہ ہی نہیں

میں خوشبوؤں کے تعاقب میں آ گیا ہوں وہاں
جہاں سے لوٹ کے جانے کا راستا ہی نہیں

یہ خود سری یا شرارت اسی کا حصہ ہے
وہ کوئی کھیل محبت میں ہارتا ہی نہیں

یہ اعتراف بھی گھبرا کے کر لیا میں نے
میں چاہتا ہوں تجھے صرف سوچتا ہی نہیں

اڑا کے لے گیا راتوں کی نیند آنکھوں سے
وہ کم سخن جو کبھی مجھ سے بولتا ہی نہیں

پکارتا ہوں میں اس کو اسی کی چوکھٹ سے
کواڑ جسم کے جو مجھ پہ کھولتا ہی نہیں

تباہ ہو گئے خودداریوں میں دونوں رئیسؔ
وہ خود کو سونپ دے لیکن میں مانگتا ہی نہیں


Leave a comment

+