شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

آر پی شوخ

  • غزل


کم کبھی راہ کے آزار تو ہوتے ہوں گے


کم کبھی راہ کے آزار تو ہوتے ہوں گے
آبلہ پائی کہیں خار تو ہوتے ہوں گے

مجھ سے یہ سوچ کے وہ میرا پتا پوچھے تھا
تنگ دستوں کے بھی گھر بار تو ہوتے ہوں گے

اس سے بچھڑا میں اندھیروں کا مکیں ہوں ورنہ
کوئی گھر ہو در و دیوار تو ہوتے ہوں گے

وہ جہاں بھی ہو اسے دیکھ کے اس شہر کے لوگ
کو بہ کو نقش بہ دیوار تو ہوتے ہوں گے

مرگ جو اپنی طرح کوئی وہاں ہو کہ نہ ہو
لوگ اسے دیکھ کے بیمار تو ہوتے ہوں گے

بے گنہ بھی تھا نہتھا بھی تھا میں اے قاتل
قتل کرنے کے بھی معیار تو ہوتے ہوں گے


Leave a comment

+