شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قمر جلالوی

  • غزل


سرخیاں کیوں ڈھونڈھ کر لاؤں فسانے کے لئے


سرخیاں کیوں ڈھونڈھ کر لاؤں فسانے کے لئے
بس تمہارا نام کافی ہے زمانے کے لئے

موجیں ساحل سے ہٹاتی ہیں حبابوں کا ہجوم
وہ چلے آئے ہیں ساحل پر نہانے کے لئے

سوچتا ہوں اب کہیں بجلی گری تو کیوں گری
تنکے لایا تھا کہاں سے آشیانے کے لئے

چھوڑ کر بستی یہ دیوانے کہاں سے آ گئے
دشت کی بیٹھی بٹھائی خاک اڑانے کے لئے

ہنس کے کہتے ہو زمانہ بھر مجھی پر جان دے
رہ گئے ہو کیا تمہیں سارے زمانے کے لئے

شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام
گیسوؤں کو کھول دو سورج چھپانے کے لئے

کائنات عشق اک دل کے سوا کچھ بھی نہیں
وہ ہی آنے کے لئے ہے وہ ہی جانے کے لئے

اے زمانے بھر کو خوشیاں دینے والے یہ بتا
کیا قمرؔ ہی رہ گیا ہے غم اٹھانے کے لئے


Leave a comment

+