شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پریم کمار نظر

  • غزل


اونٹ سب واپس پھرے آگے کوئی صحرا نہ تھا


اونٹ سب واپس پھرے آگے کوئی صحرا نہ تھا
نقش پا ہی نقش پا تھے دور تک رستہ نہ تھا

اپنے اندر کتنے موسم اور باہر زردیاں
میں فصیل جسم میں جب تھا تو یوں پھیکا نہ تھا

پھر کھجوروں کے درختوں میں دھواں سا کس لیے
آگ جب تاپی نہ تھی اور قافلہ ٹھہرا نہ تھا

کاغذی پوشاک میں وہ گھر سے جب باہر گیا
آسماں پر ابر بن کر میں ابھی برسا نہ تھا

ہر طرف بکھری ہوئی ریگ ندامت تھی نظرؔ
جسم کا چڑھتا ہوا دریا مگر اترا نہ تھا


Leave a comment

+