شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پرویز رحمانی

  • غزل


اندھیروں سے اگر آئینہ سامانی ہوئی ہوگی


اندھیروں سے اگر آئینہ سامانی ہوئی ہوگی
بڑی مشکل سے کوئی شکل نورانی ہوئی ہوگی

چراغوں کے پتے ملتے نہیں شب گاہ ہستی میں
ہوائے شام تجھ سے کوئی نادانی ہوئی ہوگی

نہیں مجھ سا کوئی تنہا زمانے میں ہوا ہوگا
نہ آبادے میں اس صورت بیابانی ہوئی ہوگی

نظر کے سامنے پھیلا ہوا دشتاب سا کیا ہے
یقیناً آب زاروں میں شتربانی ہوئی ہوگی

پروں پر آسمانی وسوسے لپٹے رہے ہوں گے
پرندوں سے تبھی پرواز گردانی ہوئی ہوگی

پھر اپنا حصہ لینے آج خودداری نہیں آئی
زمیں داروں سے بٹوارے میں من مانی ہوئی ہوگی

شکار شعر شور انگیز ان کے ہاتھ آ جائے
اسی ضد میں حریفوں سے غزل رانی ہوئی ہوگی

یوں برفانی ہواؤں سے عقاب الجھے اگر ہوں گے
تو شریانوں میں بہتی آگ بھی پانی ہوئی ہوگی

نکالے ہوں گے جب افکار نے شعروں میں گل بوٹے
تبھی کوئی غزل پرویزؔ رحمانی ہوئی ہوگی


Leave a comment

+