شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناطق گلاوٹھی

  • غزل


کس کو مہرباں کہئے کون مہرباں اپنا


کس کو مہرباں کہئے کون مہرباں اپنا
وقت کی یہ باتیں ہیں وقت اب کہاں اپنا

اب جہاں میں باقی ہے آہ سے نشاں اپنا
اڑ گئے دھوئیں اپنے رہ گیا دھواں اپنا

اے خدا گلہ سن لے اپنی بے نیازی کا
آج حال کہتا ہے ایک بے زباں اپنا

سو کے رات کاٹی ہے بے کسی کے پہلو میں
چاندنی نے دیکھا ہے میرے گھر سماں اپنا

گھر تو اب بھی دنیا کے دھوپ ہی میں بنتے ہیں
کیوں اٹھا نہیں لیتا سایہ آسماں اپنا

ہم سفر کے قصہ کو ختم کر کے چلتے ہیں
راستہ بدلتی ہے اپنی داستاں اپنا

نامراد دنیا میں رہ کے خوب بھر پائے
چل نکل چلیں اے دل کچھ نہیں یہاں اپنا

جانتے ہوئے ناطقؔ ہم وطن کی حالت کو
ڈھونڈتے پھریں جا کر کس لئے مکاں اپنا


Leave a comment

+