شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناطق گلاوٹھی

  • غزل


جس کی حسرت تھی اسے پا بھی چکے کھو بھی چکے (ردیف .. ا)


جس کی حسرت تھی اسے پا بھی چکے کھو بھی چکے
اب کسی چیز کا ہم کو نہیں ارماں ہوتا

شدت درد ہی ہوتی کہیں غارت گر ہوش
بخت اتنا تو نہ برہم زن ساماں ہوتا

چارہ گر کوشش بے سود ہے تدبیر علاج
ہم نہ ہوتے تو مرض قابل درماں ہوتا

آ ہی جاتا ہے برے وقت میں اپنوں کو خیال
کوئی ہوتا جو ہمارا بھی تو پرساں ہوتا

پوچھتے کیا ہو سبب دفن دل زار کے بعد
میں مصیبت زدہ اب بھی نہ ہراساں ہوتا

رونے والوں کو تو تقدیر سے رو بیٹھے تھے
اے اجل کون ہمارے لئے گریاں ہوتا

غم کو اب رکھئے کہاں زیست کہیں زیست بھی ہو
ختم قصہ ہوا جس کا کہ یہ عنواں ہوتا

ہم تو اس بات پہ راضی تھے مگر اے ناطقؔ
نفس کافر بھی کسی طرح مسلماں ہوتا


Leave a comment

+