شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصرہ زبیری

  • غزل


کبھی کانٹوں نے یوں چھیلی ہوائیں


کبھی کانٹوں نے یوں چھیلی ہوائیں
ہوئیں کچھ اور نوکیلی ہوائیں

سنہری دھوپ اوڑھے ناچتی ہیں
مرے آنگن میں چمکیلی ہوائیں

مری چنری سجاتی ہیں دھنک سے
گلابی کاسنی نیلی ہوائیں

عجب ہے پھولتی سرسوں کا جادو
ہرے رستے چلیں پیلی ہوائیں

شمالی کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں
دسمبر کی یہ برفیلی ہوائیں

خزاں پتوں کو لینے آ رہی ہے
ہوئی ہیں خوف سے پیلی ہوائیں

یہ انسانی کرم کا پھل ہیں شاید
دھواں آلود زہریلی ہوائیں

سلگ اٹھے ہیں موسم تشنگی کے
بدن چھونے لگیں گیلی ہوائیں

گئے ساون کی یادوں سے لپٹ کر
چلی آئی ہیں کچھ سیلی ہوائیں


Leave a comment

+