شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر شہزاد

  • غزل


تو درد تازہ کے عنوان کی مہورت ہے


تو درد تازہ کے عنوان کی مہورت ہے
سکھی سکھی مجھے اب بھی تری ضرورت ہے

تجھے گپھاؤں کہیں آب ناؤں میں دیکھا
ازل سے آئینہ دل میں تیری صورت ہے

رکھوں سنبھال کے کب تک یہ زندگی تجھ بن
ترے ملن کا سبب ہے نہ کوئی صورت ہے

سڈول پاؤں سبک سوہنا سجل ناؤں
نشہ طراز بدن موہنا مدھورت ہے

یہی نہ تیرے لئے کوہ کاٹے بن پاٹے
تجھے کچھ اور بھی مجھ سے کوئی کدورت ہے


Leave a comment

+