شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر شہزاد

  • غزل


آنکھوں کے آبگینے بہے پھوٹ پھوٹ کر


آنکھوں کے آبگینے بہے پھوٹ پھوٹ کر
یوں دل نے تجھ سے پیار کیا ٹوٹ ٹوٹ کر

جنگل سبھی کٹے سجے منڈپ سبھی ہٹے
راجیش کھو گئے کہیں رادھا سے روٹھ کر

مت کہہ اسے نٹور نگوڑا نڈر سکھی
پی ہے مرا میں جاؤں کہاں اس سے چھوٹ کر

بندھن جگت کے پاؤں کی زنجیر ہی سہی
آ تج کے یہ روایتیں اس سچ کو جھوٹ کر

جگنو نے اس سے پوچھا چلی ہے کدھر بتا
زلفوں میں رات چاندنی چہرے پہ لوٹ کر

قرضے چکائے منتیں اٹھوائیں لائے لوگ
جب بستیوں میں کھیتوں سے یہ دھان کوٹ کر

گیانی وہ گیت ریت کا شبدوں کا شبھ کوی
رہنے دے یار چھوڑ نہ یوں خود کو ہوٹ کر


Leave a comment

+