شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

مبارک شمیم

  • غزل


اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے


اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے
جو لکھا ہے وہی قسمت میں لکھا رہنے دے

سچ اگر پوچھ تو زندہ ہوں انہیں کی خاطر
تشنگی مجھ کو سرابوں میں گھرا رہنے دے

آہ اے عشرت رفتہ نکل آئے آنسو
میں نہ کہتا تھا کہ اتنا نہ ہنسا رہنے دے

اس کو دھندلا نہ سکے گا کبھی لمحوں کا غبار
میری ہستی کا ورق یونہی کھلا رہنے دے

شرط یہ ہے کہ رہے ساتھ وہ منزل منزل
ورنہ زحمت نہ کرے باد صبا رہنے دے

یوں بھی احساس الم شب میں سوا ہوتا ہے
اے شب ماہ مری حد میں نہ آ رہنے دے

زندگی میرے لیے درد کا صحرا ہے شمیمؔ
میرے ماضی مجھے اب یاد نہ آ رہنے دے


Leave a comment

+