شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ماہم شاہ

  • غزل


کیا سناؤں دل مضطر کا فسانہ تم کو


کیا سناؤں دل مضطر کا فسانہ تم کو
میں نے چاہا تھا کبھی ایک زمانہ تم کو

یہ جو تم عید پہ بھی آتے نہیں لوٹ کے گھر
کوئی چھٹی کا نہیں ہوتا بہانہ تم کو

بستر مرگ پہ ماں تھی تو نہ تھے سامنے تم
بہت ہی مہنگا پڑا ہے چلے جانا تم کو

گاؤں کے کچے مکانوں میں یہ پکے رشتے
راس آئے گا نہیں شہر کا کھانا تم کو

ہر مہینے یہ نئے نوٹ یہ خط کیا مطلب
نہ مناؤ نہیں آتا ہے منانا تم کو

ایک کمرہ ہے کرائے کا یہ بازاری غذا
شہر میں کیسے ملے شاہی ٹھکانہ تم کو

آخری خط کو پڑھو اس میں ملے گا ماہمؔ
بھول جانے کا اسے کوئی بہانہ تم کو


Leave a comment

+