شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ماہر عبدالحی

  • غزل


روز اول ہی سے تفریق یہ اوقات میں ہے


روز اول ہی سے تفریق یہ اوقات میں ہے
کوئی ہے دن کے اجالے میں کوئی رات میں ہے

میں بھی مجموعۂ اضداد ہوں دنیا کی طرح
کہیں صحرا کہیں گلزار مری ذات میں ہے

ہے مرے گرد مری ماں کی دعاؤں کا حصار
غم نہیں ہے کوئی دشمن جو مری گھات میں ہے

میں تہی دست ہوں لیکن یہ پتہ ہے مجھ کو
وہ مرے نام ہے جو چیز ترے ہات میں ہے

دامن شب میں چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
عکس کس کا یہ مری خاک کے ذات میں ہے

تیرگی خوف کی پہلو میں بسی ہے لیکن
کچھ امیدوں کی چمک دل کے مضافات میں ہے

مل ہی جائے گی کہیں پاؤں ٹکانے کی جگہ
اب ستاروں کا جہاں میری فتوحات میں ہے

مری پستی پہ بہت طنز نہ کر چشم فلک
اس کو بھی دیکھ بلندی جو خیالات میں ہے

ایک ہی رنگ میں رہتی ہے طبیعت ہر دم
فرق جاڑے میں نہ گرمی میں نہ برسات میں ہے

دل لرزتا ہے پس پردہ نہ ہو زہر کوئی
کچھ زیادہ ہی مٹھاس اب کے تری بات میں ہے

دیکھنا وہ بھی کہیں چھوٹ نہ جائے ماہرؔ
جو چمکتا ہوا اک رنگ روایات میں ہے


Leave a comment

+