شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لیث قریشی

  • غزل


مناظر شب رفتہ خیال و خواب ہوئے


مناظر شب رفتہ خیال و خواب ہوئے
وہ اشک تھے کہ ستارے سبھی خراب ہوئے

وہ نا خدا کہ خدائی کا جن کو دعویٰ تھا
سفینے ان کی حماقت سے زیر آب ہوئے

ہم اہل درد زمانے کے ہاتھ کیا آتے
کہ ہم تو اپنے لئے بھی نہ دستیاب ہوئے

تلاش جام طرب میں کہاں کہاں نہ گئے
پئے بغیر بھی ہم تو بہت خراب ہوئے

ہم ان کے عیب کو کیا اور کیوں عیاں کرتے
جو بے ضمیر تھے وہ خود ہی بے نقاب ہوئے

فریب ہی سے نوازا ہے ان رفیقوں نے
مری جناب میں آ کر جو باریاب ہوئے

تمام عمر مذاق جنوں جو رکھتے تھے
رہ خرد میں وہی لوگ کامیاب ہوئے

ہمارا صبر ہے بے انتہا تو حیرت کیا
کہ لیثؔ ہم پہ ستم بھی تو بے حساب ہوئے


Leave a comment

+