شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لکشمی نارائن فارغ

  • غزل


خطا انجام ہو کر رہ گیا ہے


خطا انجام ہو کر رہ گیا ہے
بشر ناکام ہو کر رہ گیا ہے

ترا ملنا بقید زندگانی
خیال خام ہو کر رہ گیا ہے

فریب اعتبار‌ سعیٔ پیہم
مرا انجام ہو کر رہ گیا ہے

ہر اک عنواں بیاض آرزو کا
ترا پیغام ہو کر رہ گیا ہے

دل ناکام کا ہر داغ حسرت
سواد شام ہو کر رہ گیا ہے

وفا کا نام فارغؔ اس جہاں میں
برائے نام ہو کر رہ گیا ہے


Leave a comment

+