شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لئیق عاجز

  • غزل


دشمنوں کو دوست بھائی کو ستم گر کہہ دیا


دشمنوں کو دوست بھائی کو ستم گر کہہ دیا
لوگ کیوں برہم ہیں کیا شیشے کو پتھر کہہ دیا

اس لیے مجھ کو امیر شہر نے دی ہے سزا
میں نے خود کو خادم سبط پیمبر کہہ دیا

چڑھتے سورج کی پرستش میں سبھی مصروف تھے
مجھ سے جب پوچھا گیا اللہ اکبر کہہ دیا

کتنے سادہ لوح ہیں یہ سب سفیران جنوں
راہزن بھی مل گیا تو اس کو رہبر کہہ دیا

ہو گیا دشمن بھی میرے حوصلے کا معترف
مجھ کو دریائے حوادث کا شناور کہہ دیا

شعر کہنے میں مجھے عاجزؔ مزہ آنے لگا
اس نے جب بے ساختہ مجھ کو سخن ور کہہ دیا


Leave a comment

+