شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خالد محمود ذکی

  • غزل


تجھے پا کر بھی جب کوئی کمی محسوس ہوتی ہے


تجھے پا کر بھی جب کوئی کمی محسوس ہوتی ہے
تو پھر یہ سانس بھی رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے

جو کہنا ہی نہیں اس کا اشارہ کیوں دیا جائے
کہ ایسی بات تو کچھ اور بھی محسوس ہوتی ہے

عدیم الفرصتی شدت سے اس کا یاد آ جانا
غنیمت ہے اگر یہ تشنگی محسوس ہوتی ہے

پلٹ کر آ گئے ہو تم تو کیوں آئے نہیں لگتے
تمہاری آنکھ میں کیوں گرد سی محسوس ہوتی ہے

وگرنہ بوجھ ہے جس کو لئے پھرنا ہے کاندھے پر
کریں محسوس تو یہ زندگی محسوس ہوتی ہے

شجر وہ بھی جسے سینچا ہو اپنا خون دے دے کر
کبھی اس کی بھی چھاؤں اجنبی محسوس ہوتی ہے

یہ میرے خواب ہیں جو سایہ کرتے ہیں مرے سر پر
مجھے اس دوپہر میں چھاؤں سی محسوس ہوتی ہے

کسی کی گفتگو کے درمیاں اکثر نہ جانے کیوں
کہیں گہری سی کوئی خامشی محسوس ہوتی ہے

زمیں تیری طرح میں بھی سفر میں ہوں کہ جیسے تو
کبھی ٹھہری نہیں ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی ہے


Leave a comment

+