شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خالد مبشر

  • غزل


مرا وجود اسی کی وصال گاہ میں تھا


مرا وجود اسی کی وصال گاہ میں تھا
اسی کا ورد مرے دل کی خانقاہ میں تھا

تمہارے قول و قسم پر فریب کیا کھاتا
تمہارا طرز عمل بھی مری نگاہ میں تھا

حروف مکر ترے لب پہ تھے مگر ظالم
مجھے فریب بھی کھانا وفا کی راہ میں تھا

تمام سنگ دلی یا کہ پھر غرور و حشم
کچھ اور اس کے سوا بھی جہاں پناہ میں تھا

ٹپک کے دیدۂ نم سے صدائیں دیتا ہے
جو ایک حرف تمنا دل تباہ میں تھا

مجھے تو راس اے خالدؔ یہی زمیں آئی
یہ اور بات مرا ذکر مہر و ماہ میں تھا


Leave a comment

+