شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خالد احمد

  • غزل


حال ہوا جب پوچھنے آئی ہم مجبوروں سے


حال ہوا جب پوچھنے آئی ہم مجبوروں سے
کوئی بات کہاں بن پائی ہم مجبوروں سے

آج سبھی دکھ آنسو بن کر آنکھ میں تیر گئے
کھیل رہی تھی کھیل خدائی ہم مجبوروں سے

وہ بے پردہ وہ بے پروا وہ یک سر یک تال
بات کرے یا وہ ہرجائی ہم مجبوروں سے

پاؤں توڑ کے بیٹھ رہے ہیں راہ کے پتھر بھی
چاہ رہے تھے راہ نمائی ہم مجبوروں سے

کس آہٹ کی بہار سے پگ پگ دھول کے پھول کھلے
کس موسم نے ٹھوکر کھائی ہم مجبوروں سے

کس کے لمس کے عکس نما ہیں خوشبو کے جھونکے
پوچھ نہ بیٹھے گل صحرائی ہم مجبوروں سے

بال نچوڑ کے جھٹکے کس نے دکھ کے دل بادل
پوچھ رہی ہے یہ پروائی ہم مجبوروں سے

درد کے رخ دروازے رکھیں چاند کے رخ کھڑکی
کاش کرائے وہ چنوائی ہم مجبوروں سے

کار نمو آغاز رہے گا گور ہو یا گلشن
رت نے سیکھی گل آرائی ہم مجبوروں سے

آنکھیں ہونٹوں کے تالے بھی کھلتے دیکھیں گی
دنیا چھین تو لے گویائی ہم مجبوروں سے

راہ دکھانے والے کس دن کس پل آ پہنچیں
کب چھن جائے یہ بینائی ہم مجبوروں سے

نور چراغ طاق تغافل دل تاریک نہ کر
بول کچھ اے ماہ یکتائی ہم مجبوروں سے

زہر پیالہ پی لو خالدؔ سلگ اٹھو خالدؔ
کیا کیا کہتی تھی شہنائی ہم مجبوروں سے


Leave a comment

+