شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جگر بریلوی

  • غزل


موت آئی کتنی بار نئی زندگی ہوئی


موت آئی کتنی بار نئی زندگی ہوئی
نکلی مگر نہ پھانس جگر میں چھپی ہوئی

اب ہو بھی کوئی مائل لطف و کرم تو کیا
ہوتی نہیں شگفتہ طبیعت بجھی ہوئی

موسم یہی بہار کا ہے عشق کے لئے
آتی نہیں پلٹ کے جوانی گئی ہوئی

کچھ زہر کا نشہ ہے تو کچھ تھرتھری سی ہے
رگ رگ میں آج ہے کوئی شے پیرتی ہوئی

آب حیات بھی کوئی چھڑکے اگر تو کیا
بجھتی نہیں ہے آگ جگر میں لگی ہوئی

آئی ہے سانس دوسری نشتر لئے ہوئے
اک سانس میں ہمیں جو مسرت کبھی ہوئی

ہر روز ایک درد نیا دل میں ہے جگرؔ
ہر رات سوچتے ہیں کہ حد درد کی ہوئی

صحرا میں چل کے غم کو بھلا دو اٹھو جگرؔ
دیکھو وہ آ رہی ہے گھٹا جھومتی ہوئی


Leave a comment

+