شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جعفر شیرازی

  • غزل


عکس جا بہ جا اپنی ذات کے گراتا ہے


عکس جا بہ جا اپنی ذات کے گراتا ہے
کون آسمانوں سے آئنے گراتا ہے

میں نے روپ دھارا ہے اس کی روح کا اور وہ
میرے نقش ہی میرے سامنے گراتا ہے

عمر بھر اٹھائے گا دکھ مرے بکھرنے کا
آنکھ کی بلندی سے کیوں مجھے گراتا ہے

شعلۂ محبت اور آب اشک اے ناداں
روشنی کو دریا میں کس لئے گراتا ہے

وہ ہوا کا جھونکا بھی میرا سخت دشمن ہے
شاخ سے جو پتے کو زور سے گراتا ہے

جذب کر نہ لے جعفرؔ سوچ لہر کی تجھ کو
تو کہاں سمندر میں کنکرے گراتا ہے


Leave a comment

+