لمحوں کے اشارے میں جفا دیکھ کے چپ ہے
کس واسطے ہر غم کو خدا دیکھ کے چپ ہے
بادل کی ریاست میں سسکتا سا اجالا
شب تاب کی معصوم ضیا دیکھ کے چپ ہے
دہشت کے حوالے سے پریشان کبھی تھا
ہر شاخ میں اب پھول کھلا دیکھ کے چپ ہے
سرسبز لبادے میں سجائے تھا جو سپنا
چہرے کا ابھی رنگ اڑا دیکھ کے چپ ہے
دل شاد مناظر کے احاطے میں زمانہ
مایوس تصور کو کھڑا دیکھ کے چپ ہے
دستک کبھی طوفان کی پرجوش تھی جعفرؔ
بکھری ہوئی خوشبو کی ردا دیکھ کے چپ ہے
Leave a comment