شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جعفر رضا

  • غزل


آتش فکر بدن گھلتا ہو پیہم جیسے


آتش فکر بدن گھلتا ہو پیہم جیسے
کسی ناگن نے کہیں چاٹی ہو شبنم جیسے

بس اسی موڑ سے کچھ آگے ہے منزل اپنی
حادثے موت نشان رہ پر خم جیسے

برف آلودہ گلوں پر یہ چمکتی کرنیں
ان کی ہنستی ہوئی آنکھیں ہوئیں پر نم جیسے

موسم گل میں یہ پتوں کے کھڑکنے کی صدا
نفس عمر کی آواز ہو مدھم جیسے

زخم دل روز کریدو تو ہو لذت افزوں
اک مداوا ہے غم یار ہو مرہم جیسے

اوس میں ڈوبے شگوفوں کی اداسی کا دھواں
کسی بیمار کی آنکھیں ہوئیں پر نم جیسے

آنکھوں آنکھوں میں کوئی بات ہوئی پھولوں میں
اپنے گلشن کی فضا ہو گئی برہم جیسے

حسن ہی حسن ہے کشمیر کے بت خانے میں
دودھیا چاندنی پھیلی ہوئی پونم جیسے

خوب جعفرؔ رضا احباب تمہارے ہیں یہ
جو ہواؤں سے بدل جاتے ہیں موسم جیسے


Leave a comment

+