شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جعفر رضا

  • غزل


وعدۂ الفت و پیمان وفا سے توبہ


وعدۂ الفت و پیمان وفا سے توبہ
تجربہ کہتا ہے اس حسن ادا سے توبہ

رات تاریک ہے بے چینی بڑھی جاتی ہے
جس کا الٹا ہو اثر ایسی دعا سے توبہ

اپنا گھر بن گیا مقتل مگر ہم اہل یقیں
نہیں کرتے ہیں غم‌ ہوش ربا سے توبہ

ان کی فسطائی طبیعت میں ہے قتل و غارت
کیوں کریں گے وہ بھلا ظلم و جفا سے توبہ

بجلی چمکے تو بہانے سے لپٹ جاتے ہیں
پھر وہ کہتے ہیں بڑی شرم و حیا سے توبہ

چشم ساقی کی قسم تھا یہ بہانہ ورنہ
کہیں کرتے ہیں مئے و جام کے پیاسے توبہ

اس نے تو چیر دیا اہل چمن کے دل کو
اب کے بل کھائی ہوئی باد صبا سے توبہ


Leave a comment

+