شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید عادل سوہاوی

  • غزل


سراب زعم میں تھا آسماں پکڑتے ہوئے


سراب زعم میں تھا آسماں پکڑتے ہوئے
زمیں پہ طفل گرا ہے دھواں پکڑتے ہوئے

سروں پہ تان گئی دھوپ پھر سے تیز ہوا
روا روی میں کئی سائباں پکڑتے ہوئے

فراز عرش سے اک ٹوٹتے ستارے نے
کیا غبار مجھے کہکشاں پکڑتے ہوئے

ہدف شناس ہوا تو یہ واقعہ بھی ہوا
وہ تیر توڑ رہا تھا کماں پکڑتے ہوئے

کوئی تو رنگ ہے موج سراب میں بھی کہ میں
یقین چھوڑ رہا ہوں گماں پکڑتے ہوئے

بہ زعم ناز کوئے بے کسی میں آ پہنچا
بصد نیاز در دوستاں پکڑتے ہوئے

جنون شوق میں کانٹے بھی پھول لگنے لگے
میں زخم زخم ہوا تتلیاں پکڑتے ہوئے

اب اس مدد سے تو اچھا ہے ڈوب جاؤں میں
وہ ڈر رہا ہے مری انگلیاں پکڑتے ہوئے

گلاس توڑا گیا جس ادا سے اس دل کا
مجھے غرور سا ہے کرچیاں پکڑتے ہوئے


Leave a comment

+